اور انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔
( سورۃ نجم آيت ۳۹ )
It is a blog about Islam, Quran, Hadith and being Muslim.
زوجہ عثمان حضرت رقیہ بنت محمد
ﷺ کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے اس حال
میں ملاقات فرمائی کہ وہ انتہائی پریشان اور مغموم حالت میں بیٹھے تھے۔
حضور ﷺ نے ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے فرمایا: اے عثمان! کیا حال ہے؟‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ!ﷺ جو صدمہ مجھ پر گزرا
ہے کسی پر نہ گزرا ہوگا‘ صاحبزادی رسول اللہ ﷺ انتقال کرگئیں جس بنا پر آپ
کا اور میرا سسرالی کا رشتہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا‘‘ اس پر حضور ﷺ نے
فرمایا ’’اے عثمان! تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ جبرائیل نے مجھ کو اللہ تعالیٰ
کا یہ پیغام پہنچایا ہے کہ میں رقیہ رضی اللہ عنہا کی جگہ ام کلثوم رضی
اللہ عنہا کا نکاح اس کے مہرمثل کے عوض میں اسی طرح تمہارے ساتھ کردوں‘‘
چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت
ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے کردیا پھر
جب باامر خداوندی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہٗ کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ
نے فرمایا ’’اگر میری اور لڑکی بھی ہوتی تو میں وہ بھی عثمان کے نکاح میں
دے دیتا۔‘‘
ایک رکعت میں پورا قرآن عبدالرحمن بن عثمان رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے (غالباً حج کے موقع پر) مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھنی شروع کردی اور اتنی لمبی نماز پڑھ لی کہ یہ خیال ہوا کہ اب اس میں مجھ سے کون سبقت لے جائے گا اتنے میں اچانک ایسا شخص آیا اور اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں کی پھر جب اس نے دوبارہ ایسا کیا تو میں نے دیکھا کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ تھے میں فرط ادب سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ وہاں کھڑے ہوگئے اور آپ نے ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالا اور واپس چلے گئے۔ خلافت کے بعد پہلا خطبہ جب اہل شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ بیعت ہوگئے تو اس وقت وہ بہت غمگین تھے ان کی طبیعت پر بہت بوجھ تھا وہ حضور اقدس ﷺ کے منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے بیان فرمایا: پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا‘ اس کے بعد فرمایا: ’’تم ایسے گھر میں ہو جہاں سے تمہیں کوچ کر جانا ہے اور تمہاری عمر تھوڑی باقی رہ گئی ہے لہٰذا تم جو خیر کے کام کرسکتے ہو موت سے پہلے کرلو‘ صبح یا شام تمہیں موت آنے ہی والی ہے غور سے سنو! دنیا سراسر دھوکہ ہی دھوکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ سو تم کو دنیا دھوکہ میں نہ ڈالے اور نہ وہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں اللہ سے (دھوکہ میں ڈالے)‘‘ اور جو لوگ جاچکے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور خوب محنت کرو اور غفلت سے کام نہ لو کیونکہ موت کا فرشتہ تم سے کبھی غافل نہیں ہوگا‘ کہاں ہیں دنیا کے وہ دلدادہ جنہوں نے دنیا میں کھیتی باڑی کی اور اسے خوب آباد کیا اور لمبی مدت تک اس سے فائدہ اٹھایا؟ کیا دنیا نے انہیں پھینک نہیں دیا؟ چونکہ اللہ نے دنیا کو پھینکا ہوا ہے لہٰذا تم بھی اسے پھینک دو اور آخرت کو طلب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اور آخرت کی۔۔۔ جو کہ دنیا سے بہتر ہے دونوں کی مثال اس آیت میں بیان کی۔ ترجمہ: اور آپ ان لوگوں سے دنیاوی زندگی کی حالت بیان فرمائیے کہ وہ ایسی جگہ ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا ہو پھر اس کے ذریعہ سے زمین کی نباتات خوب گنجان ہوگئی ہو‘ پھر ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی ایک رونق ہے اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی۔‘‘بیان کے بعد لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے بیعت ہونے لگے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا آخری خطبہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے مجمع کے اندر جو آخری بیان فرمایا اس میں مندرجہ ذیل کلمات ارشاد فرمائے: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا اس لیے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت حاصل کرو‘ اس لیے نہیں دی کہ تم اسی کے ہوجاؤ‘ دنیا فنا ہونے والی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے نہ تو فانی دنیا کی وجہ سے اترانے لگو اور نہ اس کی وجہ سے آخرت سے غافل ہوجاؤ فانی دنیا پر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کو ترجیح دو کیونکہ دنیا ختم ہوجائے گی اور ہم سب نے لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی اس کے عذاب سے ڈھال اور اس کی بارگاہ میں پہنچنے کا وسیلہ ہے اور احتیاط سے چلو کہ کہیں اللہ تمہارے حالات نہ بدل دے اور اپنی جماعت سے چمٹے رہو اور مختلف گروہوں میں تقسیم نہ ہوجاؤ۔ ’’اور تم پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اس کو یاد کرو جب کہ تم ایک دوسرےکے دشمن تھے پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی تو سو تم خداتعالیٰ کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ دورفتن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی حالت ابوالاشعث الصنعانی سے روایت ہے کہ ملک شام میں مختلف خطیب خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے ان میں حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے پھر ایک شخص کھڑے ہوئے جنہیں مرہ بن کعب رضی اللہ عنہٗ کہتے تھے انہوں نے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تومیں کھڑا نہ ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور ان کا قریب ہونا بیان فرمایا پھر ادھر سے ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے گزرا‘ فرمایا اس دن یہ ہدایت پر ہوگا‘ میں نے اٹھ کر ان کو دیکھا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ تھے۔ میں نے ان کا چہرہ آنحضرت ﷺ کے سامنے کرکے عرض کی کہ ’’یہی ہیں‘‘ فرمایا ’’ہاں! یہی ہیں۔‘‘ حضرت عثمان ؓ اور اتباع سنت کا جذبہ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ اپنے کچھ مصاحبین کے ہمراہ تشریف فرما تھے اتنے میں مؤذن آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا پھر فرمایا ’’میں نے حضور ﷺ کو ایسا ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسا وضو میں نے ابھی کیا ہے۔ ایسا وضو کرنے کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا تھا جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے گا پھر کھڑے ہوکر ظہر کی نماز پڑھے گا تو اس کے ظہر اور فجر کے درمیان کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے‘ پھر وہ عصر کی نماز پڑھے گا تو ظہر اور عصر کے درمیان کے سارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے پھر وہ مغرب پڑھے گا تو مغرب اور عصر کے درمیان کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے‘ پھر وہ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزار دے گا۔ پھر وہ اٹھ کر وضو کرکے فجر کی نماز پڑھے گا تو اس کے فجر اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے‘ یہی وہ نیکیاں ہیں جو گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں نے دریافت کیا ’’اے عثمان! (رضی اللہ عنہٗ) یہ تو حسنات ہوگئیں تو باقیات صالحات کیا ہوں گی؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: ’’باقیات صالحات یہ کلمات ہیں:۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ وَلَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ’’اللہ کے سوا کوئی
معبود نہیں‘ اللہ پاک ہے‘ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں‘ اللہ سب سے بڑا ہے‘
نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔‘‘
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرشتوں پر ایمان "ملائکہ" یعنی فرشتے ایک پوشیدہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں،ان میں "ربوبیت" اور "الوہیت" کی کوئی خصوصیت موجود نہیں،اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے اور ان کو اپنے تمام احکام پوری طرھ بجا لانے اور انہیں نافذ کرنے کی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ... ترجمہ: اور اسی کا ہے جو کوئي آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے ہاں ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتےاور نہ تھکتے ہیں رات اور دن تسبیح کرتے ہیں سستی نہیں کرتے (سورۃ الانبیاء،آیت 19-20) فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی قصہ معراج والی حدیث میں ہے: "نبی ﷺ جب آسمان پر "بیت المعمور" پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جو اس میں ایک بار (نماز پڑھ کر ) چلا جاتا ہے دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتا،یعنی پھر کبھی اس کی واپسی کی نوبت نہیں آتی۔"(صحیح بخاری،بد ء الخلق ،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،حدیث :3207،وصحیح مسلم ،الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔۔۔۔،حدیث :164) فرشتوں پر ایمان لانا چار امور پر مشتمل ہے • فرشتوں کے وجود پر ایمان۔ • جن فرشتوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر ایمان مفصل اور جن فرشتوں کے نام معلوم نہیں ان سب پر اجمالا ایمان لانا۔ • فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان لانا جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی صفت کے متعلق نبی ﷺ نے بیان فرمایا: میں نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا۔ان کے چھ سو پر تھے اور انہوں نے افق کو بھر رکھا تھا۔یعنی پوری فضا پر چھائے ہوئے تھے۔(مسند احمد:1/407،412،460۔) کبھی فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسانی شکل و صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق معروف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بھیجا تو وہ ان کے پاس ایک عام انسان کی شکل میں آئے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اس وقت آپ (ﷺ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان تشریف فرما تھے۔وہ ایک ایسے شخص کی شکل میں آئے تھے کہ ان کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال غیر معمولی طور پر سیاہ تھے اور ان پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے،صحابہ میں سے کوئی بھی انہیں نہیں پہچانتا تھا۔وہ اپنے گھٹنے نبی ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے۔انہوں نے نبی ﷺ سے اسلام،ایمان،احسان،قیامت کی گھڑی اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا۔نبی ﷺ انہیں جواب دیتے رہے۔پھر نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ھذا جبریل اتاکم یعلمکم دینکم "یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔"(صحیح مسلم،الایمان،باب الایمان ما ھو؟وبیان خصالہ،حدیث:9،10) اسی طرح وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیھم السلام کے پاس بھیجا تھا وہ بھی انسان ہی کی شکل میں آئےتھے۔ • فرشتوں کے ان اعمال پر ایمان لانا جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دیتےہیں،مثلا اللہ عزوجل کی تسبیح کرنا اور دن رات مسلسل بغیر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے اس کی عبادت کرنا وغیرہ۔بعض فرشتے مخصوص اعمال کے لیے مقرر ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: جبریل امین اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پر مامور ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ انہیں اپنے نبیوں اور رسولوں کے پاس بھیجا ہے۔ میکائیل ان کے ذمہ بارش اور نباتات (یعنی روزی) پہنچانے کا کام ہے۔ اسرافیل قیامت کی گھڑی اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت صور پھونکنے پر مامور ہیں۔ موت کا فرشتہ موت کے وقت روح قبض کرنے پر مامور ہے۔ مالک یہ فرشتہ داروغہ جہنم ہے۔ جنین پر مامور فرشتے اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شکم مادر مین جنین (بچے) پر مامور ہیں،چنانچہ جب انسان ماں کے رحم میں چار ماہ کی مدت پوری کر لیتا ہےتو االلہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی موت،اس کے عمل اور اس کے بد بخت یا سعادت مند ہونے کو اھاطہ تحریر میں لاتا ہے۔ نبی آدم کے اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے ہر شخص کے اعمال کی حفاظت اور انہیں لکھنے کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں جن میں سے ایک انسان کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب رہتا ہے۔ مُردوں سے سوال کرنے پر مامور فرشتے جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس سے اس کے رب ،اس کے دین اور اس کے نبی کی بابت سوال کرتے ہیں۔ |